بیس پینس کی ایمانداری: لندن کی سفید فام خاتون نے امام مسجد سے شادی کرلی
**************
میرا نام محمد اسحاق ہے اور میں لندن کے مضافات میں ایک مسجد کا امام ہوں۔سالوں پہلے کی بات ہے میں پاکستان میں روزگار کے لئے دھکے کھا رہا تھا کہ اچانک ایک صاحب نے مجھے لندن جانے کاراستہ دکھایا۔ دراصل ہوا یہ کہ میں کراچی میں ایک صاحب کے بچوں کو گھر پر قرآن پاک پڑھانے جاتا تھا۔ یہ برطانوی شہری تھے اور لندن میں ان کے کافی رشتہ دار مو جود تھے۔ انہیں وہاں اپنی مسجد کے لئے ایک امام کی ضرورت پڑی تو اپنے بھائی سے کہا کہ پاکستان سے کوئی اچھا سا عالم دین بھیج دیں اور اس طرح میری لاٹری کھل گئی اور میں لندن پہنچ گیا۔
مجھے روازانہ گھر سے مسجد جانے کیلئے بس پر سوار ہونا پڑتا تھا۔
لندن پہنچنے کے ہفتوں بعد، لگے بندھے وقت اور ایک ہی روٹ پر بسوں میں سفر کرتے ہوئے کئی بار ایسا ہوا کہ بس بھی وہی ہوتی تھی اور بس کا ڈرائیور بھی وہی ہوتا تھا۔ اب جو میں بتانے جا رہا ہوں وہ بلکل سچا واقعہ ہے اور میرے ساتھ پیش آیا۔
ایک مرتبہ میں بس پر سوار ہوا، ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی کے پیسے لیکر ایک نشست پر جا کر بیٹھ گیا۔ سفید فام خاتون ڈرائیور کے دیئے ہوئے باقی کے پیسے جیب میں ڈالنے سے قبل دیکھے تو پتہ چلا کہ بیس پنس زیادہ آگئے ہیں۔
میں سوچ میں پڑ گیا، پھر اپنے آپ سے کہا کہ یہ بیس پنس اترتے ہوئے خاتون ڈرائیور کو واپس کر دیں گے کیونکہ یہ اُن کا حق نہیں بنتے۔ پھر ایک سوچ یہ بھی آئی کہ بھول جاؤ ان تھوڑے سے پیسوں کو، اتنے تھوڑے سے پیسوں کی کون پرواہ کرتا ہے!!!
ٹرانسپورٹ کمپنی ان بسوں کی کمائی سے لاکھوں پاؤنڈ کماتی بھی تو ہے، ان تھوڑے سے پیسوں سے اُن کی کمائی میں کیا فرق پڑ جائے گا؟ اور میں ان پیسوں کو اللہ کی طرف سے انعام سمجھ کر جیب میں ڈالتا ہوں اور چپ ہی رہتا ہوں ویسے بھی میں غریب ہوں اور ان پیسوںپر میرا حق ہے۔
بس میرے مطلوبہ سٹاپ پر رُکی تو میں فیصلہ کر چکا تھا کہ نہیں یہ رقم میں نہیں رکھ سکتا اور یہ میرے لئے اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے کہ میں حرام کھاتا ہوں یا نہیں۔
میں نے اُترنے سے پہلے خاتون ڈرائیور کو بیس پنس واپس کرتے ہوئے کہا؛ یہ لیجیئے بیس پنس، لگتا ہے آپ نے غلطی سے مُجھے زیادہ دے دیئے ہیں۔
خاتون ڈرائیور نے بیس پنس واپس لیتے ہوئے مُسکرا کر امام صاحب سے پوچھا؛کیا آپ اس علاقے کی مسجد کے نئے امام ہیں؟ میں بہت عرصہ سے آپ کو دیکھ رہی ہوں اور کچھ لوگوں سے آپ کے بارے میں پوچھا بھی تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں ہی اس علاقے کی مسجد کا نیا امام ہوں۔ اس پر وہ بولی کہ میں آپ کی مسجد میں آ کر اسلام کے بارے میں
معلومات لینا چاہ رہی تھی کیا آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہو گا۔ یہ بیس پنس میں نے جان بوجھ کر تمہیں زیادہ دیئے تھے تاکہ تمہارا اس معمولی رقم کے بارے میں رویہ پرکھ سکوں اور یہ جان سکوں کہ تم کتنے ایماندار ہو۔ اگر تم بیس پنس کے معاملے میں بے ایمانی کرتے تو پھر مذہب اور عقیدے اور خدا کے بارے میں تم پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ تم ایماندار ہو اور میں تم سے روحانی رہنمائی لے سکتی ہوں۔ میں نے اسے جیسے تیسے کر کے مسجد آنے کا وقت بتایا اور بس سے نیچے اتر آیا۔
یہ تقریبا دس سال قبل کی بات ہے اور اب تو میرے اس سفید فام نو مسلم بیوی سے چار بچے بھی ہیں۔ اگر کبھی آپ لندن میں بس سے سفر کریں اور اس کی سفید فام خاتون ڈرائیور کو اچھی طرح اسکارف اوڑھے دیکھیں تو سمجھ جائے گا کہ وہ میری ہی بیوی ہے۔ ہم دونوں کی ہی عمر اب چالیس سال ہو چکی ہے اور بہت جلد میری بیوی بس ڈرائیور کی ملازمت چھوڑ کر اسلامی کتب کی ایک دکان کھولنے والی ہے۔ اگر آپ لندن میں رہتے ہیں تو ہماری دکان پر ضرور آئے گا اس رمضان میں۔ ہاں ایک بات اور، میں نے اپنی اس سفید فام بیوی کو آج تک نہیں بتایا کہ کرائے کی بیس پینس ہضم کرنے کے لئے میں بہت دیر تک سوچتا رہا تھا۔ آپ بھی انہیں مت بتائے گا۔
Nice little story, full of lesson for a human being especially, if he is a muslim and follow the islamic guidance. May almighty ALLAH give us courage to following the true path going to heaven. Aameen.
ReplyDeletehahahaha, bhai sidhe ho jae; kabhi pata chal gya to lag jae gi ap ki
ReplyDeletebusiness folders